وسط ایشیا میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کا عروج مجددی مشائخ اور خلفاء کی نظر سے

  • Admin
  • Jan 08, 2022

وسط ایشیا  میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کا عروج

مجددی مشائخ اور خلفاء کی نظر سے

(16 ویں تا 18 ویں صدی عیسوی میں )

پروفیسر ڈاکٹر ساجد و سلطانہ علوی(کینیڈا)

تلخیص و ترجمہ:سید جمیل احمد رضوی

(ریٹائرڈ چیف لائبریرین پنجاب یونیورسٹی لاہور)

ماوراءالنہر کے علماء و مشائخ شکر اللہ  تعالیٰ سقیھم کے حقوق  ہم دور افتادہ اور پس ماندوں  بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں پر اس قدر ہیں کہ تحریر و تقریر میں نہیں آ سکتے۔اہل سنت وجماعت کے عقائد اور آراء صائبہ کے موافق  اعتقاد کی درستی اور علماء حنفیہ رضی اللہ عنہم کے مذہب کے بموجب عمل کی صحت انہی بزرگواروں کی تدقیقات و تحقیقات  سے حاصل ہوئی ہے اور طریقہ و علیہ صوفیہ قدس سرہم کا سلوک بھی اس ملک میں اسی مکان شریف سے میسر ہوا ہے۔(شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ)  اس طرح سلسلہ نقشبندیہ کی مجددیہ شاخ کے بانی نے وسط ایشیا سے ہندوستان میں نقشبندیہ سلسلہ کی منتقلی (شجر کاری) کے بارے میں ذکر کیا۔  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندانی اور روحانی اخلاف آنے والی صدیوں میں اپنی وسطی ایشیائی میراث پر مسلسل فخر کرتے رہے ہیں اور تحریروں میں اپنی پسماندگی کا اعتراف بھی کرتے رہے ہیں۔  تصوف کا نقشبندیہ سلسلہ جو جنوبی ایشیا میں قدرے بعد میں آنے والی شاخ ہے، 16 ویں صدی  کے شروع میں مغلوں کے ساتھ یہاں آیا۔  اس سلسلے کی مجددیہ شاخ کو جس نے ہندوستان میں ترقی کی،  وسطی ایشیا کے ساتھ اپنے روابط کا اعتراف کرنے میں کبھی ناکام نہیں ہوئی۔دوسرا بڑا عامل جس نے ہندوستانی مسلمانوں کے رشتہ کو وسطی ایشیا کے ساتھ مضبوط بنانے میں خدمات سرانجام دیں وہ ترک اسلامی میراث تھی جس نے ہند اسلامی معاشرہ تشکیل دیا۔محمود غزنوی (م421ھ... 1030ء)  کے اخلاف جنہوں نے ہندوستان کی سرزمین میں ترک اسلامی میراث کے بیج بوئے،  لیکن مغلوں کے آنے سے یہ اپنے عروج پر پہنچی جو مغل وسطی ایشیاء فاتح امیر تیمور لنگ (عہد حکومت 705۔771ھ...1370۔1405ء)  کے اخلاف تھے اور مغلوں کے زوال کے بعد یہ (میراث) کافی دیر تک موثر رہی۔یہ زوال (1129ھ...1707ء) میں شروع ہوا تھا۔  اصل مقالہ انگریزی زبان میں ہے۔ اس کی تلخیص اردو زبان میں شائع کی جا رہی ہے۔ یہ مقالہ درج ذیل کتاب میں شائع ہوا:

Reason and Inspiration in Islam, Theology, Philosophy   and Mysticism in Muslim Thought: Essays in Honour of Hermann Landolt. Edited by Todd Lawson. (London: I.B. Tauris Publisher’s 2005), PP.418-431

نقشبندیہ اور نقشبندیہ مجددیہ نے جدید دور میں کچھ عالمانہ اور فاضلانہ توجہ حاصل کی ہے لیکن وسط ایشیا میں نقشبندیہ مجددیہ کے بارے میں زیادہ نہیں لکھا گیا۔اس مطالعہ کے لیے دو تازہ مقالات متعلقہ ہیں جن کو Foltz اور  Buehler   نے لکھا ہے۔

بوہلر Buehler مغلیہ ہندوستان میں وسطی ایشیائی مجددیہ میراث کی موجودگی کا سراغ لگاتا ہے اور ان عوامل کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے سلسلہ نقشبندیہ کو ہندوستان اور وسط ایشیاء میں ہر دل عزیز بنایا۔ فولٹز کا مقالہ وسطی ایشیائی مجددیہ کے مغل حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کا خاکہ پیش کرتا ہے۔زیرنظر مطالعہ (مقالہ) ان دو مقالات کا تتمہ  ہے اگرچہ یہ صرف ابتدائی اور اکتشافی نوعیت کا ہے اور اس انحصار بعض اہم ہندوستانی مجددیہ تحریروں پر ہے۔  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے کہ پہلے کہا گیا ہے،  نے اس حقیقت پر فخر کیا کہ نقشبندیہ صوفی سلسلہ نے برصغیر میں وسط ایشیا سے جڑ حاصل کی اور 17 ویں صدی عیسوی  میں مجددی شاخ کی عظیم اصلاح کے ساتھ وسط ایشیا میں لوٹ گیا۔شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ ایک روحانی پیر،  ایک روحانی مرشد اور ایک مکمل زندہ صوفی تھے جن کو اللہ تعالی نے نظام کائنات(قیوم۔قطب الاقطاب)  کی حمایت کا کام سونپا تھا جن کے معاصرین کی اکثریت ان کا بہت ادب و احترام کرتی تھی اور بعض نے ان پر تنقید بھی کی تھی۔بعد میں آنے والی نسل (اخلاف) ان کو ہندوستان میں اجتماع ضدین کی ابھرتی ہوئی لہر کے سامنے سرمایہ اسلام، سرمایہ ملت کا نگہبان سمجھتی ہے۔

ایک معاصر فاضل، عبدالحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ (م1076ھ... 1657ء)،  نے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو مجدد الف ثانی کا لقب دیا۔شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے عبدالاحد رحمتہ اللہ علیہ (م1714)  نے وسطی ایشیائی اسلام پر اپنے دادا کے اثرات کو ان کے مجدد ہونے کے ایک شاہد کی حیثیت سے دیکھا۔  انہوں نے اپنے دادا کی شعوری کوشش کو سراہا  جو انہوں نے مشرق اور مغرب میں اپنے خیالات کی ترویج و اشاعت کے لئے کی، جس سے بہت لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور ان ہزاروں مسلمانوں کی مذہبی رسوم اور عقائد کی اصلاح ہوگئی۔

 باہمی جماعتی روابط (The Networking) 

تمام دستیاب مآخذ  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے اتحاد عالم اسلامی کے پیغام کی اپیل اور مجددی طریقہ کی اشاعت کے لئے ان کے خلفاء کے باہمی روابط کے نظام پر زور دیتے ہیں، تجدید کے 14 ویں  سال سترہ خلفاء ترکستان اور قبچاق کی طرف محمد خان طالقانی  کی قیادت میں بھیجے گئے۔ چالیس یمن، شام اور روم (ترکی) کی طرف فرخ حسین کی نگرانی میں بھیجے گئے اور شیخ احمد برکی نے توران،بدخشان اور خراسان  کی جانب تین بڑے خلفاء کی رہنمائی کی۔  مکتوبات کی پہلی جلد جس کو شیخ یارمحمد جدید طالقانی نے مرتب کیا تھا،  کی تکمیل کے بعد اس کے بہت سے نسخے تیار کئے گئے اور ان کو ایران، توران اور بدخشان میں پھیلایا گیا جس سے اچھا اثر ہوا۔  یہاں پر دی گئی خاص تفاصیل ثانوی مآخذ سے ماخوذ ہیں جن کی جانچ پرکھ مشکل ہے،  لیکن یہ شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے سوانح نگاروں کی آراء سے مماثلت و مطابقت رکھتی ہیں۔قابل اعتماد بنیادی ماخذ میں دو سوانح حیات ہیں زبدۃ المقامات اور حضرات القدس  ،جن کو شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے دو نہایت ممتاز خلفاء نے علی الترتیب لکھا ہے۔محمد ہاشم کشمی (1054ھ...1644ء) اور بدرالدین سرہندی (زندہ در 1048ھ....1648ء)  عہد مغلیہ کے ہندوستان کی سوانح نگاری کے رواج کے مطابق وہ شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے افغانستان اور وسط ایشیاء میں بڑے بڑے خلفاء کے مفصل حالات تحریر کرتے ہیں۔  زبدۃ المقامات میں کشمی  نے چھوٹے بڑے 43 خلفاء شامل کیے ہیں ( شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹوں کے علاوہ)۔  ان میں سے 13 ہندوستان کے باہر کے ہیں۔ حضرات القدس میں 19 میں سے نو اور بعد کے کم قابل اعتبار (ماخذ) روضۃالقیومیہ میں 27  خلفاء میں سے 14  غیر ہندوستانی تھے۔ ہندوستان میں آنے والوں میں سے جو روحانی طور پر امتیازی حیثیت حاصل کر لیتے تھے ان کو خلافت دی جاتی تھی اور لوگوں سے بیعت لینے اور ان کی تربیت کرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔  بعض اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور دوسروں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔  ان باہمی روابط سے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات مغلیہ ہندوستان سے باہر پھیل گئیں۔خلفاء اپنے شیخ سے مکتوبات کے ذریعے رابطہ رکھتے تھے۔شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کی تین جلدیں جن میں 536 مکتوبات ہیں،  مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفے کے بڑے ماخذ ہیں،  ایک ایسا ذریعہ  جس سے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی میراث پھیلی اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا مخزن جس سے صوفیانہ،  دانش وارانہ اور اپنے عہد کی معاشرتی زندگی کی تشکیل جدید ہوئی،  پہلی اور تیسری جلد کے مرتبین علی الترتیب یار محمد جدید طالقانی اور محمد ہاشم کشمی بدخشانی کا تعلق وسط ایشیا سے تھا جیسا کہ ان کے ناموں سے ظاہر ہے۔

شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی خط و کتابت کے نمونے

شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریبا بانوے خطوط وسط ایشیا اور افغان خلفاء کو لکھے۔میر مومن بلخی کے نام دو  خطوط میں سے ایک میں شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے ماوراءالنہر کے لوگوں کے لئے اپنی محبت اور احترام کا اظہار کیا۔  اس مکتوب کو کسی قدر طوالت کے ساتھ یہاں نقل کیا جاتا ہے کیونکہ یہ وسطی ایشیائی نقشبندی صوفیہ اور ہندوستان کے مجددی صوفیہ (مجددیہ) کے تعامل (باہمی عمل) پر روشنی ڈالتا ہے۔اس مکتوب کا پہلا پیرا مقالے کی ابتداء میں اقتباس کی صورت میں دیا گیا ہے:  مقامات جذب و سلوک و فنا و بقاء اور سیر الی اللہ و سیر فی اللہ  جو مرتبہ ولایت خاصہ پر وابستہ ہیں،  ان کی تحقیق اسی مبارک جگہ کے بزرگوں کے فیوض سے پہنچتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سید السادات علیہ الصلوٰۃ و السلام  کے طفیل اس جگہ کو اور وہاں کے رہنے والوں کو آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔  وہ یار (دوست) جو وقتاً فوقتاً اس بلند ملک سے اس پست ملک میں آتے ہیں،  وہاں کے حضرات صاحب برکات کا لطف و کرم اور خاص کر  ارشاد و ہدایات پناہ و افادت دستگاہ سلمہ اللہ تعالیٰ  یعنی جناب کی شفقت و محبت اس حقیر کی نسبت ظاہر کرتے ہیں کہ وہ شرافت کے نشان والے عالی جناب فقیر کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں اور فقیر کے بعض  ان علوم و معارف کو جو لکھے گئے ہیں مطالعہ کرتے اور پسند فرماتے ہیں،  کیونکہ انہی دنوں میں ازسرنو شیخ ابو المکارم صوفی نے آکر آپ کے لطف و کرم کا اظہار کیا اور مہربانی فرمائی۔  اس لیے آپ کے کرم پر بھروسا کر کے یہ چند کلمے لکھ کر آپ کو تکلیف دی  اور اپنی یاد آوری کی طرف آپ کو توجہ دلائی۔  کیونکہ اس فقیر کے بعض مسودوں کی نقل مرتبہ برادرم محمد ہاشم،  جو مخلص دوستوں میں سے ہے، صوفی مشار الیہ  کے ہمراہ ارسال کر دی ہے  اس لیے اسی پر اکتفا  کیاگیا ہے اور اس طائفہ علیہ کے علوم و معارف کی کوئی بات اس خط میں درج نہیں کی۔  جناب کی شفقت و عنایت سے امید ہے کہ خاص خاص وقتوں میں فقیر کو سلامت خاتمہ کی دعائے خیر سے یاد فرماتے رہا کریں گے،  حضرات اعلی درجات یعنی شرافت ونجابت کی پناہ والے اور اہل اللہ کے جائے پناہ جناب سید میرک شاہ بخاری اور افادہ کے  مرتبہ والے جہان کے علامہ جناب مولانا حسن اور شریعت کے ناصر اور ملت کے حافظ قاضی تو لک ادام اللہ برکاتھم کی خدمت  میں اس فقیر کی فقیرانہ دعوت پہنچا دیں اور فقیر زادوں کی طرف سے مخدوم زادوں کی خدمت میں سلام عرض کر کے دعا کی التماس کریں۔  بدرالدین نے حضرات القدس میں بعض وسطی ایشیائی صوفیہ کو شامل کیا جو ہندوستان نہ آ سکے لیکن انہوں نے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے التماس کی کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی جانب روحانی توجہ فرمائی جائے۔  انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ سید میرک شاہ، میر مومن بلخی حسن قبادیانی اور قاضی مولانا تولک نے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں ایک درویش کے ہاتھ تحائف بھیجے جو ہندوستان آرہا تھا۔اس درویش نے ان کے خطوط دیے اور اپنے شیخ میر محمد بلخی کا پیغام دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر بڑھاپا اور طویل سفر دونوں مانع نہ ہوتے  تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے اعلی مقامات نور سے استفادہ کرتا۔میر محمد بلخی نے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے التجا کی کہ ان کی عدم موجودگی میں اپنی روحانی توجہ سے نوازیں۔  ملاقات کرنے والے درویش نے اپنے شیخ کی طرف سے بیعت بھی کی۔  روانگی سے پہلے درویش نے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ وہ بلخ کے لوگوں کے لئے بھی ایک پیغام لکھ دیں کیونکہ وہ شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے ادراک و عرفان سے بہت متاثر ہیں۔انہوں نے اپنی نیک خواہشات کو چند الفاظ میں لکھ کر اس کی التجا کو پورا کردیا۔

شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام

  وسط ایشیا کے لوگوں اور افغانوں کو بھیجے گئے مکتوبات صرف تصوف سے متعلقہ مسائل تک محدود نہیں ہیں۔  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ ایک فاضل عالم تھے،  ایک صوفی جن کی بصیرت بہت گہری تھی۔  انہوں نے خود بھی سنت پر عمل کیا اور اس کو ہر دلعزیز بنایا،  مذہب میں بدعت کو روکا دینی اور روحانی معاملات میں قیادت فراہم کی اور اپنے مضبوط عقائد پر قائم رہے اور ان کی سیاسی دباؤ اور دھمکی سے حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔  وہ اس کے قائل تھے کہ نقشبندیہ کی تعلیمات اور معمولات خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ مؤثر ہیں۔  جو دوسرے صوفی سلاسل میں منزل مقصود ہوتی ہے وہ نقشبندیہ میں نقطہ آغاز ہوتا ہے کیونکہ اس سلسلہ کے دو بنیادی اصول ہیں:  سنت کی مضبوطی سے پیروی اور بدعت سے احتراز کرنا۔   انہوں نے محمد اشرف کابلی کو لکھا، یہ سلسلہ سماع،  رقص اور تواجد سے احتراز کرتا ہے کیونکہ یہ چیزیں پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نہ تھیں۔  انہوں نے خواجہ محمد قاسم امکنگی رحمۃ اللہ علیہ اور میر سید حسین رحمۃ اللہ علیہ کو خبردار کیا،  اس سلسلہ میں خود نظمی روح کو زیر نگیں کرنے کے لیے، جو نفس امارہ کو ابھارتی ہے، شرعی احکام پر عمل کرنے اور سنت کے لازم پکڑنے سے حاصل کی جاتی ہے۔  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت ایک عالم کی حیثیت سے ہوئی تھی۔اس لیے وہ علماء، بحیثیت ایک جماعت، کی اہمیت سے خوب واقف تھے اور ان سے توقع رکھتے تھے کہ وہ ہند کے اسلامی معاشرے میں ایک مرکزی کردار ادا کریں۔  انہوں نے قطعی طور پر کہا کہ شریعت میں نسخ اور تبدیلی نہیں ہے اور یہ علماء ہی ہیں جن کو پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ان کے فرض کو ادا کرنا ہے۔  انہوں نے معاصر علماء کی بے حسی اور بدعت کے خلاف کام نہ کرنے پر تاسف کا اظہار کیا۔انہوں نے احمد برکی کے نام مکتوب میں کہا کہ ان کو اپنے علاقے برک میں شریعت کی اشاعت و ترویج کرنی چاہیے، فقہی احکام کو پھیلانا چاہیے اور علماء کے گروہ میں شامل ہو جانا چاہیے۔ان کو چاہئے کہ افراد کو دینی علوم کی تعلیم دیں اور فقہی احکام کو عام کریں کیونکہ یہ دونوں چیزیں (اس سلسلے کا) اصل مقصود ہیں.  ان پر افراد  کی روحانی ترقی اور نجات کا دارومدار ہے۔  ہم شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کے ساتھ قریبی رابطے اور علاقے میں ان کی فلاح و بہبود کی حساسیت کو معلوم کر سکتے ہیں۔  مثال کے طور پر احمد برکی کی وفات پر اپنے تعزیتی مکتوب میں ان کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انہوں نے مولانا حسن کو نیا خلیفہ مقرر کیا،  ان کی نئی ذمہ داریوں کا خاکہ پیش کیا اور حسن کے پیروکاروں/مریدوں  سے کہا کہ وہ ان کی اپنے روحانی پیشوا کی حیثیت سے عزت کریں۔  یہ زیادہ اہم ہے کہ نقشبندیہ مجددیہ صوفیہ نے وسط ایشیا میں تجدید کے پیغام کی سرگرمی سے اشاعت و ترویج کم سے کم دو سو سال تک کی۔شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (م1624ء تا شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ م 1824ء)۔ یہ مظہر مکتوبات اور ملفوظات کے اس ادب میں تحریر کیا گیا ہے جو برصغیر میں لکھا گیا۔اس ادب سے بعد میں آنے والی نسلوں کی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تحریروں سے دلچسپی کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔

اختتامی تبصرہ

مجددیہ کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے یہ ملحوظ خاطر رہے کہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کا وسط ایشیا کے ساتھ ناتہ صرف مجددیہ تک محدود نہ تھا۔ اس رابطہ کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ آج بھی، اس کے باوجود کہ درمیان میں پرآشوب صدیاں گزر چکی ہیں، وہ آداب مجلس، لباس، کھانے پینے کا طریقہ  اور مختلف پھلوں کے اصل نام موجود ہیں جن کو برصغیر میں ترک سلاطین اور مغل شہنشاہوں نے متعارف کرایا۔  یہ سب کچھ آج بھی دانشوروں، عام لوگوں اور اردو و فارسی ادب، علاقائی زبانوں اور لوک ادب میں پایا جاتا ہے۔بیسویں صدی کے سب سے زیادہ نمایاں فلسفی شاعر (علامہ) محمد اقبال (م1938ء) نے اس مضبوط رشتے کا حوالہ دیا:

اگرچہ زادۂ ہندم، فروغ چشم من است

ز خاک پاک بخارا و کابل و تبریز !

ایک اور شعر میں شاعر نے جنوبی اور وسط ایشیا میں کوئی سرحد نہیں دیکھی:

ایک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند!

  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی میراث کو فروغ  دینے کی آبرو ان کے خاندانی اور روحانی اخلاف اور ان کے مریدین اور خلفاء ہیں۔ جدید علمی دنیا میں اور اہم بنیادی مآخذ (جن میں مکتوبات مرزا مظہر جان جاناں اور ان کے کثیر التصانیف خلیفہ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1810ء) اور شاہ فقیر اللہ علوی شکار پوری (م 1751ء))  کی اشاعت سے شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ متحرک اسلام کے مجدد کی حیثیت سے ابھرتے ہیں جن کے پیغام نے ان کے روحانی اخلاف اور خلفاء اورمریدین کے علم و فضل سے وسعت حاصل کی۔انہوں نے  مریدین کے طرز عمل کے لیے دستور العمل لکھے اور مجددی مشائخ کے ملفوظات اور مکتوبات کو مرتب کیا۔  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی خلف، مولانا خالد نے مرید بھائی، شاہ ابو سعید مجددی، کو شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے اتحاد اسلامی کے اثر و رسوخ کے بارے میں لکھا۔ ان کے مطابق ترکی، عرب دنیا، حجاز، عراق، ایران (عجم)  کے بعض علاقے اور تمام کردستان میں لوگ ارفع و اعلیٰ  مجددی طریقہ کے لیے جذبہ اور احساس رکھتے ہیں اور رات دن ان کے محامد سماجی ماحول، اجتماعات، مساجد و مدارس میں ادنیٰ و اعلیٰ دونوں سے بیان کیے جاتے ہیں۔  آج بھی مجددی روایت بہت سے ناموں کے ساتھ تروتازہ ہے، ڈھاکہ سے پشاور، کابل سے استنبول، بغداد سے بوسنیا، مغربی جاوا سے شمالی سماٹرا اور یورپ سے شمالی امریکہ تک۔